حریص شب کبھی آسودۂ سحر نہ ہوا

حریص شب کبھی آسودۂ سحر نہ ہوا
یہ کاروبار ہوس ہے جو مختصر نہ ہوا


کسی سے ہو نہ سکا خود گزیدگی کا علاج
یہ زہر وہ ہے کہ تریاک کا اثر نہ ہوا


سبھوں کو بھول گیا کاروبار ہستی میں
میں اپنے آپ سے اک پل بھی بے خبر نہ ہوا


جو آج تک مرے لمس قلم سے ہے محروم
وہ حرف حرف تو ہے حرف معتبر نہ ہوا


عجیب بات ہے پتھر پہ رہ گیا محفوظ
وہ نقش پا جو کبھی نقش رہ گزر نہ ہوا


تھکن سے چور تھے رکتے تو پھر قیامت تھی
بھلا ہوا جو کہیں سایۂ شجر نہ ہوا


وہ آدمی جو مقام بشر سمجھ نہ سکا
تمام عمر فرشتہ رہا بشر نہ ہوا


خدا پرستی نہیں ہے تو خود پرستی سہی
مگر جبیں کو مری ذوق سنگ در نہ ہوا


اسے خیال تھا تشکیل جادۂ نو کا
کسی کے ساتھ وہ آمادۂ سفر نہ ہوا