پردہ رخ فطرت سے ہٹا کر نہیں دیکھا

پردہ رخ فطرت سے ہٹا کر نہیں دیکھا
منظر پہ نظر تھی پس منظر نہیں دیکھا


انصار کے خنجر پہ مہاجر کا لہو ہے
تاریخ نے ایسا کبھی منظر نہیں دیکھا


پتھر کی سیاست سے جو محفوظ رہا ہو
ایسا کسی شیشے کا مقدر نہیں دیکھا


تھی دسترس فکر میں وہ ساعت خوش رنگ
خوشبو کا بدن تھا اسے چھو کر نہیں دیکھا


وہ شہر کے ہنگاموں میں خاموش کھڑی ہے
شاید شب ہجراں نے مرا گھر نہیں دیکھا


ترشے تو صنم پگھلے تو شیشے کی نزاکت
اے کم نظرو تم نے وہ پتھر نہیں دیکھا


جھکنے نہیں دیتی ہے انا تشنہ لبی کو
دریا کی طرف میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا


ہے اس کو بہت قوت بازو پہ بھروسا
دریا کے شناور نے سمندر نہیں دیکھا


ہے غم ہی سے لبریز تو پھر کیسی مسرت
کیا تو نے مرا ظرف مقدر نہیں دیکھا