مرا خواب تمنا ساعت بیدار جیسا ہے

مرا خواب تمنا ساعت بیدار جیسا ہے
مگر اک اک نفس چلتی ہوئی تلوار جیسا ہے


نظر اپنی نواح رنگ سے آگے نہیں بڑھتی
پس منظر یقیناً سایۂ دیوار جیسا ہے


دل آزاری مری فطرت میں شامل ہے نہ عادت میں
تمہیں معلوم ہی ہوگا مرا کردار جیسا ہے


تمنائی تو ہیں لیکن کوئی آگے نہیں بڑھتا
مری شہرت کا ہنگامہ فراز دار جیسا ہے


سمندر آدمی کا کھا گیا کتنے سفینے کو
یہاں جو شہر ہے وہ دوستو منجدھار جیسا ہے


یہ دنیا ملکیت اپنی نہ ورثہ ہے بزرگوں کا
یہاں جو آدمی ہے وہ کرایہ دار جیسا ہے


تلون کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا مناظر میں
کسی موسم سے ملیے وہ مزاج یار جیسا ہے


یہ کیونکر منفرد ہوتا ہے یہ اسلوب غزل تیرا
زمیں کے رنگ جیسا چاند کے رخسار جیسا ہے


ملو جس سے بھی وہ سود و زیاں کی گفتگو چھیڑے
ہمارے عہد میں رشتہ بھی کاروبار جیسا ہے


ہزاروں کام ہوں پڑھیے مگر کالم ضرورت کا
مرے بچے کا چہرہ صبح کے اخبار جیسا ہے


مبارک رمزؔ تجھ کو خسرو ملک سخن ہونا
ہتھیلی میں جو چھالا ہے وہی دینار جیسا ہے