قطرہ ہوں میں وسعت دے دریا کر دے
قطرہ ہوں میں وسعت دے دریا کر دے
تو چاہے تو ساگر کو صحرا کر دے
تلخی کا احساس مٹا دے دنیا سے
یارب تو ہر پیڑ کا پھل میٹھا کر دے
یہ خواہش تو صدیوں سے ہے نسلوں کی
خود ظاہر ہو یا مجھ کو افشا کر دے
زرد چٹانیں کاٹ رہا ہوں صحرا میں
گرد کی چادر پھیلا کر سایہ کر دے
لاج بچا لے میری کج دستاری کی
بونوں کی بستی میں قد اونچا کر دے
زنجیروں پر اتنا بھروسا مت کرنا
جوش جنوں میں وحشی جانے کیا کر دے
انساں خود ہے خالق اپنی ضرورت کا
چلتے چلتے پگڈنڈی پیدا کر دے
ابر بنے تو کھاری پانی میٹھا ہو
تیری مشیت جب چاہے جیسا کر دے
میری محبت ضامن ہے شادابی کی
تیری چاہت پتوں کو پیلا کر دے
رونے والو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
خون کا چھینٹا قاتل کو رسوا کر دے
اتنی دوری رمزؔ ہے کیوں گھر والوں میں
نفرت کی دیوار گرا رستہ کر دے