گلے پہ اک خنجر آب دار کس کا ہے
گلے پہ اک خنجر آب دار کس کا ہے
یہ روز روز مری جاں پہ وار کس کا ہے
ہے کون سازش گرد و غبار کے پیچھے
پس سموم جنوں ریگزار کس کا ہے
دھمک زدہ ہیں خلاؤں میں بستیاں کس کی
شکستہ سر پہ مکاں انتشار کس کا ہے
چمکتے رنگ کھلے نقش آئینہ چہرے
تو آج نقش نظر پر یہ بار کس کا ہے
سراب و دشت زمان و مکان سب یکساں
ہمیں بھی دہر میں اب اعتبار کس کا ہے
ہے کون دل کی ادائے طلب سے ناواقف
بغیر نغمہ لرزتا ہے تار کس کا ہے
کوئی نہیں ہے اگر دفتر تخاطب میں
تو پھر یہ حرف یہ قول و قرار کس کا ہے
پلٹ کے آئی ہے مقتل میں زندگی راحتؔ
فقیہ شہر کو اب انتظار کس کا ہے