شیش محل میں دو پل کو مہمان ہوئے تھے ہم (ردیف .. ن)
شیش محل میں دو پل کو مہمان ہوئے تھے ہم
آئینے میں اب تک اپنا چہرہ ڈھونڈتے ہیں
نئی عمارت کے سائے میں کیسا ہے یہ ڈھیر
لوگ پرانے اس میں اپنی دنیا ڈھونڈتے ہیں
پیاس کہاں لگتی ہے اس طوفانی موسم میں
پھر بھی جنگل میں سب آہو دریا ڈھونڈتے ہیں
بستی خود ہو جاتی ہے ویرانے میں تبدیل
جوش جنوں میں دیوانے کب صحرا ڈھونڈتے ہیں
یوں بھی تو خود سے ہی باتیں کرنی ہیں دن رات
ہم بھی کوئی راحتؔ اپنے جیسا ڈھونڈتے ہیں