زمین دن رات جل رہی ہے
زمین دن رات جل رہی ہے
تبھی تو شعلے اگل رہی ہے
کلام کرتے ہیں لوگ خود سے
بھڑاس دل کی نکل رہی ہے
ابھی سے کیا فیصلہ کروں میں
ابھی تو دنیا بدل رہی ہے
قدم بڑھانے کا ہے نتیجہ
کہ برف اب کچھ پگھل رہی ہے
وہاں تو موسم ہے بارشوں کا
ندی یہاں کیوں ابل رہی ہے
تم اپنا شوشہ اٹھائے رکھو
مری طبیعت بہل رہی ہے
جگی ہے کوئی تو آس مجھ میں
جو نیند خوابوں میں ڈھل رہی ہے
ہٹا جو ملبہ تو میں نے جانا
ابھی مری سانس چل رہی ہے
نفس نفس جی رہا ہوں راحتؔ
گڑھی گڑھی موت ٹل رہی ہے