جو لوگ دیدہ و دل کو تباہ دیکھتے ہیں

جو لوگ دیدہ و دل کو تباہ دیکھتے ہیں
مکین خواب کے آنے کی راہ دیکھتے ہیں


ہمیں اب آنکھ کے منظر کا اعتبار نہیں
سو ہم اب عکس نہیں بس نگاہ دیکھتے ہیں


یہ کیسی آگ لگاتا ہے آفتاب کہ ہم
زمین و عرش کو ہوتے سیاہ دیکھتے ہیں


تم اپنی ذات سے کوئی مطالبہ نہ کرو
ہم اپنے آپ سے کر کے نباہ دیکھتے ہیں


ہوا نے شہر کا نقشہ بدل دیا شاید
غبار راہ میں ہم سیرگاہ دیکھتے ہیں


برائے نام ہے بس میرا مہتمم ہونا
کہ انتظام تو سب سربراہ دیکھتے ہیں


میں صاف گو ہوں مگر بے زبان لگتا ہوں
یہ کس طرح سے مجھے سب گواہ دیکھتے ہیں


کریں گے ہم بھی کبھی فرق میٹھے کھارے میں
ابھی تو آب کی خواہش میں چاہ دیکھتے ہیں


نکل کے نرغہ قہر و عذاب سے راحتؔ
سب اپنے واسطے جائے پناہ دیکھتے ہیں