Raees Rampuri

رئیس رامپوری

  • 1930

رئیس رامپوری کی غزل

    خود اپنی ذلت و خواری نہ کرنا

    خود اپنی ذلت و خواری نہ کرنا کسی کم ظرف سے یاری نہ کرنا اگر تم شاد رہنا چاہتے ہو کسی کی بھی دل آزاری نہ کرنا اگر توفیق ہو سچ بولنے کی تو اپنی بھی طرف داری نہ کرنا تمہیں ہم جانتے پہچانتے ہیں کبھی ہم سے اداکاری نہ کرنا کسی کے ساتھ کر لینا عبادت ہر اک کے ساتھ مے خواری نہ کرنا نہ ...

    مزید پڑھیے

    جیسے کوئی ربط نہیں ہو جیسے ہوں انجانے لوگ

    جیسے کوئی ربط نہیں ہو جیسے ہوں انجانے لوگ کیا سے کیا ہو جاتے ہیں اکثر جانے پہچانے لوگ منہ سے بات نکلتے ہی سو گڑھ لیں گے افسانے لوگ بیٹھے بیٹھے بن لیتے ہیں کیسے تانے بانے لوگ دیر و حرم ہی سے دنیا کو ہوش کی راہیں ملتی ہیں دیر و حرم کے نام پہ ہی بن جاتے ہیں دیوانے لوگ کوئی انہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل میں مرے ارمان بہت ہیں

    دل میں مرے ارمان بہت ہیں اس گھر میں مہمان بہت ہیں آپ زمانے کو کیا جانیں آپ ابھی نادان بہت ہیں ایسے ہی ہنس کر دل رکھ لو ویسے تو ارمان بہت ہیں ہے تو ان کا نام لبوں پر اتنے بھی اوسان بہت ہیں غور کرو گے تو کانٹوں کے گلشن پر احسان بہت ہیں

    مزید پڑھیے

    نیاز عشق سے ناز بتاں تک بات جا پہنچی

    نیاز عشق سے ناز بتاں تک بات جا پہنچی زمیں کا تذکرہ تھا آسماں تک بات جا پہنچی محبت میں کہیں اک رازداں تک بات جا پہنچی بس اب کیا تھا زمانے کی زباں تک بات جا پہنچی زمانہ تاڑ لے گا میں نہ کہتا تھا یہ اب سمجھے مجھے دیوانہ کہنے سے کہاں تک بات جا پہنچی نظام میکدہ پر تبصرے اور ہوش والوں ...

    مزید پڑھیے

    نظر میں سب کی مری بے خودی کا عالم ہے

    نظر میں سب کی مری بے خودی کا عالم ہے کسے خبر کہ بڑی بے بسی کا عالم ہے عجیب شے ہے یہ نیرنگئ زمانہ بھی کسی کا کوئی نہیں ہے کسی کا عالم ہے میں اب حقیقت دنیا سمجھ گیا شاید خود اپنے آپ سے بیگانگی کا عالم ہے ہر ایک دیکھ رہا ہے مرے تبسم کو کسے خبر جو مری زندگی کا عالم ہے مجھے عزیز ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    کم میسر ہو جو ہوتی ہے اسی کی قیمت

    کم میسر ہو جو ہوتی ہے اسی کی قیمت کثرت غم نے بڑھائی ہے خوشی کی قیمت پیرویٔ دل ناداں کا سلیقہ ہے جنہیں ان سے پوچھے کوئی بے راہروی کی قیمت تم نے ہنستے مجھے دیکھا ہے تمہیں کیا معلوم کرنی پڑتی ہے ادا کتنی ہنسی کی قیمت احترام اپنا ہی خود جس کی نگاہوں میں نہ ہو کیا بھلا اس کی نگاہوں ...

    مزید پڑھیے

    جب سے دل میں ترے بخشے ہوئے غم ٹھہرے ہیں

    جب سے دل میں ترے بخشے ہوئے غم ٹھہرے ہیں محرم اور بھی اپنے لئے ہم ٹھہرے ہیں غم کہ ہر دور میں ٹھہرائے گئے حاصل زیست اور اس دور میں ہم صاحب غم ٹھہرے ہیں ہم تری راہ میں اٹھے ہیں بڑے عزم کے ساتھ گردش دہر بھی ٹھہری ہے جو ہم ٹھہرے ہیں شوق آوارگی و ذوق طلب کے قرباں اٹھ گئے ہیں تو کہاں ...

    مزید پڑھیے

    طرح طرح کے سوالات کرتے رہتے ہیں

    طرح طرح کے سوالات کرتے رہتے ہیں اب اپنے آپ سے ہم بات کرتے رہتے ہیں عطا ہوئی ہے ہمیں جب سے دولت احساس غموں سے سب کے ملاقات کرتے رہتے ہیں خوشی میں خوش ہوں میں جن کی انہیں یہ کیا معلوم کہ خودکشی مرے جذبات کرتے رہتے ہیں نصیحتیں نہ کریں اب تو کیا کریں کہ رئیسؔ یوں ہی تلافئ مافات ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہیں یہ جبر کیسا زندگی کے ساتھ ہے

    کیا کہیں یہ جبر کیسا زندگی کے ساتھ ہے ہم کسی کے ساتھ ہیں اور دل کسی کے ساتھ ہے زندہ رکھنے کی روایت آستیں کے سانپ کی اک نہ اک ہمدرد بھی ہر آدمی کے ساتھ ہے اپنی اپنی مصلحت ہے اپنا اپنا ہے مفاد ورنہ اس دنیا میں کب کوئی کسی کے ساتھ ہے ہو چکی ہیں مشکلات راہ سب پر آشکار اب جو میرے ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھیں ہیں اور تمہارے خواب

    اپنی آنکھیں ہیں اور تمہارے خواب کتنے پر کیف ہیں ہمارے خواب ان کے حق میں بڑا سہارا ہیں دیکھتے ہیں جو بے سہارے خواب حاصل زندگی جنہیں کہئے کچھ ہمارے ہیں کچھ تمہارے خواب یوں ہی بنتے بگڑتے رہتے ہیں گردش وقت کے سہارے خواب ہاں نہ ٹوٹے طلسم خوش فہمی یوں ہی دیکھو رئیسؔ پیارے خواب

    مزید پڑھیے