تھی دھوپ تیز اس قدر بدن بھی جیسے جل گیا
تھی دھوپ تیز اس قدر بدن بھی جیسے جل گیا مگر بڑھا جو میرا قد تو آفتاب ڈھل گیا جب اس گلی میں جھوٹ کی سنیں فریب کاریاں تو اس گلی میں سچ سنا اور آگے میں نکل گیا جو میرا نام آ گیا وہ مسکرا کے رہ گیا رقیب کی خوشامدوں کا زور اس پہ چل گیا یہاں ہر ایک سمت ہیں لطافتیں نفاستیں کہیں یہ دل ...