تھی دھوپ تیز اس قدر بدن بھی جیسے جل گیا

تھی دھوپ تیز اس قدر بدن بھی جیسے جل گیا
مگر بڑھا جو میرا قد تو آفتاب ڈھل گیا


جب اس گلی میں جھوٹ کی سنیں فریب کاریاں
تو اس گلی میں سچ سنا اور آگے میں نکل گیا


جو میرا نام آ گیا وہ مسکرا کے رہ گیا
رقیب کی خوشامدوں کا زور اس پہ چل گیا


یہاں ہر ایک سمت ہیں لطافتیں نفاستیں
کہیں یہ دل ٹھہر گیا کہیں یہ دل مچل گیا


یہ رہنے والا شہر کا یقیں نہ کر سکا کبھی
وہ رہنے والا گاؤں کا کہ جھوٹ سے بہل گیا


تھی میرے پاس روشنی تو وہ بھی میرے ساتھ تھا
اندھیرا جب ہوا تو وہ کہاں سے کب نکل گیا


مجھے نہیں ہے اس کا غم کہ مفلسی ملی مجھے
مجھے یہ غم ستا رہا ہے اس کا کام چل گیا


ہمیں نیازیؔ آج بھی تری وہ بات یاد ہے
جو گر گیا سو گر گیا جو اٹھ گیا سنبھل گیا