آج گلشن میں یہ افواہ اڑا دی جائے
آج گلشن میں یہ افواہ اڑا دی جائے
زندگی کی سبھی خوشیوں کو ہوا دی جائے
بادۂ انس یوں تقسیم گرا دی جائے
کوئی باقی نہ رہے سب کو پلا دی جائے
پرچم اب ظلم کا لہراتے ہیں ہر سو ظالم
آپ بتلائیے کس کس کو سزا دی جائے
لوگ جیبوں میں چھپے سانپ لیے پھرتے ہیں
قریہ قریہ یہ خبر سب کو سنا دی جائے
جھکنے پائے نہ کبھی امن و اماں کا پرچم
اٹھو نفرت کی یہ دیوار گرا دی جائے
ہند میرا ہی نہیں سب کا ہی پیارا ہے وطن
دل میں ہر ایک کے یہ بات بٹھا دی جائے
لفظ آسان نیازیؔ ہیں تری غزلوں میں
ان میں اب میرؔ کی تصویر لگا دی جائے