رسوا کیا شعور کو دانائی چھین لی
رسوا کیا شعور کو دانائی چھین لی جہل خرد نے آنکھوں سے بینائی چھین لی سانسوں میں گونجتی ہوئی شہنائی چھین لی شہروں نے مجھ سے گاؤں کی پروائی چھین لی اس طرح بھی بدلتے ہیں نظروں کے زاویے خود خواب ہی نے خواب کی رعنائی چھین لی روحوں کی مفلسی نے بہرحال ایک دن چہرہ آئنوں سے خوئے ...