Qaisar Siddiqi

قیصر صدیقی

قیصر صدیقی کی غزل

    الزام کچھ نہ کچھ تو مرے سر بھی آئے گا

    الزام کچھ نہ کچھ تو مرے سر بھی آئے گا آنگن میں پیڑ ہوگا تو پتھر بھی آئے گا سورج کے غسل کرنے کا منظر بھی آئے گا ان جنگلوں کے بعد سمندر بھی آئے گا ساماں جراحتوں کے بھی ہم ساتھ لے چلیں اس راستے میں شہر ستم گر بھی آئے گا وہ سانپ جس کو دودھ پلاتی ہے دشمنی تھیلی سے ایک روز وہ باہر بھی ...

    مزید پڑھیے

    حیات رقص میں ہے کائنات رقص میں ہے

    حیات رقص میں ہے کائنات رقص میں ہے چراغ بادہ جلاؤ کہ رات رقص میں ہے ستارے آئے ہیں ذروں کی بندگی کے لیے نوید صبح مبارک حیات رقص میں ہے کچھ اس ادا سے چلا قافلہ گناہوں کا نمود صبح سے اب تک نجات رقص میں ہے ہے ایک حشر سا برپا زمیں کے سینے میں کچھ اس طرح نفس حادثات رقص میں ہے یہ کون ...

    مزید پڑھیے

    آؤ ہم تم عشق کے اظہار کی باتیں کریں

    آؤ ہم تم عشق کے اظہار کی باتیں کریں ڈال کر بانہوں میں باہیں پیار کی باتیں کریں پھول کی باتیں کریں گلزار کی باتیں کریں پیار کی باتیں کریں بس پیار کی باتیں کریں بات ہم دونوں کو یہ تو سوچنی ہی چاہئے پیار کے موسم میں کیوں تکرار کی باتیں کریں اس سے اچھی بات کوئی اور ہو سکتی نہیں یار ...

    مزید پڑھیے

    روشنی صبح کی یا شب کی سیاہی دیں گے

    روشنی صبح کی یا شب کی سیاہی دیں گے جو بھی دینا ہے تمہیں ظل الٰہی دیں گے شیخ صاحب تو ازل سے ہیں دشمن میرے کھا کے قرآں کی قسم جھوٹی گواہی دیں گے ان سے رکھئے نہ کسی مہر و وفا کی امید یہ تو ایسے ہیں کہ سورج کو سیاہی دیں گے موسم لطف عطا ہے ابھی میخانے میں جام کیا چیز ہے یہ تم کو صراحی ...

    مزید پڑھیے

    وہ رخصت کی گھڑی وہ دیدۂ نم یاد آتے ہیں (ردیف .. ے)

    وہ رخصت کی گھڑی وہ دیدۂ نم یاد آتے ہیں نہ جانے آج کیوں بھولے ہوئے غم یاد آتے ہیں یہ چشم دوست کی سازش نہیں تو اور پھر کیا ہے کہ میرے مندمل زخموں کے مرہم یاد آتے ہیں ہوا ہے جب سے دل صید ستم ہائے غم دوراں وہ یاد آتے تو ہیں لیکن بہت کم یاد آتے ہیں یہاں ہم غم غلط کرنے کو آئے تھے مگر ...

    مزید پڑھیے

    منہ پھیر کر وہ سب سے گیا بھی تو کیا گیا

    منہ پھیر کر وہ سب سے گیا بھی تو کیا گیا کم بخت سارے شہر کو پاگل بنا گیا پتھر کو بولنے کی ادائیں سکھا گیا وہ شخص کیسے کیسے تماشے دکھا گیا اس کو یہاں سے جانے کا بے حد ملال تھا مڑ مڑ کے اپنے گھر کی طرف دیکھتا گیا دنیائے خواب اور حقیقت کے درمیاں تھوڑا جو فاصلہ تھا اسے بھی مٹا گیا سب ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا

    گھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا مجھ سے پہلے مرا سایہ نکلا پھاڑ کر دامن صحرا نکلا میرے اندر سے جو دریا نکلا اک تبسم جو ملا تھا مجھ کو وہ بھی اک زخم تمنا نکلا جس پہ کل سنگ ملامت برسے آج وہ دار پہ عیسیٰ نکلا آئنہ دیکھا جو عریاں ہو کر جسم ہی جسم کا پردا نکلا جس نے یہ بھیڑ لگا رکھی ...

    مزید پڑھیے

    انا کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر جاتا

    انا کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر جاتا اگر میں ٹوٹ نہ جاتا بکھر بکھر جاتا مری تلاش میں نکلی تھی آفتاب کی فوج جو میں گپھا سے نکلتا تو آج مر جاتا میں جان کر نظر انداز کر گیا ورنہ ترا لباس سر انجمن اتر جاتا کہیں سے کوئی کرن ہی نہ آ سکی ورنہ یہ تیرگی کا کھنڈر روشنی سے بھر جاتا زمین ہی ...

    مزید پڑھیے

    اک بھیڑ ہے جلووں کی اور میری نظر تنہا

    اک بھیڑ ہے جلووں کی اور میری نظر تنہا ہے آئنہ خانے میں خود آئینہ گر تنہا ان پاؤں کے چھالوں سے پوچھو یہ بتائیں گے طے کیسے کیا ہم نے شعلوں کا سفر تنہا جلتے ہوئے موسم میں اس طرح وہ ہنستا ہے صحرا میں ہنسے جیسے کوئی گل تر تنہا کیا جانئے کیوں مجھ پر یہ خاص عنایت ہے کیا جانئے جلتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    رشتہ کیسے ٹوٹتا ہے خواب سے تعبیر کا

    رشتہ کیسے ٹوٹتا ہے خواب سے تعبیر کا آؤ دکھلاؤں تمہیں یہ کھیل بھی تقدیر کا اے مصور ہے یہی حاصل تری تحریر کا حسن خود ہی پیرہن ہے حسن کی تصویر کا بن گیا ہے استعارہ حسن عالم گیر کا آئنہ در آئنہ چہرہ مری تحریر کا جیسے جیسے قید کی میعاد گھٹتی جائے گی تنگ ہوتا جائے گا حلقہ مری زنجیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4