خواب جو دیکھے ہیں میں نے انہیں پیکر دے گا

خواب جو دیکھے ہیں میں نے انہیں پیکر دے گا
میرا صحرا مجھے اک روز سمندر دے گا


ایک قطرہ جو لرزتا ہے مری پلکوں پر
زرد موسم کو یہی قطرہ ہرا کر دے گا


مجھ کو کچھ اور فضاؤں میں بکھر جانے دو
میرا احساس خلاؤں میں مجھے گھر دے گا


ہوں گنہ گار مگر اتنا گنہ گار نہیں
مجھ کو دے گا بھی تو وہ پھول سا پتھر دے گا


سوچتا ہوں تو تھکن اور بھی بڑھ جاتی ہے
پھر مجھے اذن سفر حرف مکرر دے گا


اسی عالم میں مرے خوابوں کی دنیا بھی ہے
میری دنیا کو بھی وقت ایک پیمبر دے گا


میرے ہم راز مرے دوست مرے ساتھ نہ چل
لمحہ لمحہ تجھے آواز کی ٹھوکر دے گا