فریاد (فریادی آشنا ہے)
کہاں ہو غالبوؔ، میروؔ نظیروؔ کہاں ہو میری زلفوں کے اسیرو میری صہبا کے پیمانو، کہاں ہو کہاں ہو میرے دیوانو کہاں ہو کہاں ہو عالمو مسند نشینو مرے خوان عطا کے ریزہ چینو! صلہ کچھ تو وفا کا دو کہاں ہو کہاں ہو میرے شہزادو کہاں ہو کہاں ہو اے مرے در کے گداؤ کم از کم اپنی صورت تو دکھاؤ کہ ...