قادر صدیقی کی غزل

    غم گناہ سے فکر نجات سے الجھے

    غم گناہ سے فکر نجات سے الجھے تمام عمر ہم افسون ذات سے الجھے توہمات سے اک جنگ تھی جو جاری رہی سحاب مرگ نہ ابر حیات سے الجھے نفس نفس پہ نگاہیں تری بدلتی رہیں قدم قدم پہ نئے حادثات سے الجھے تجھے جو مان لیا ہم نے بس وہ مان لیا زباں صفت پہ نہ کھولی نہ ذات سے الجھے کبھی خرد سے نپٹنا ...

    مزید پڑھیے

    پیار کا آج چلن دوستو دشوار ہے کیوں

    پیار کا آج چلن دوستو دشوار ہے کیوں آج انسان خود انسان سے بیزار ہے کیوں آج کے دور نے یہ کون سی کروٹ لی ہے آج کے دور میں معصوم گنہ گار ہے کیوں بے گناہوں کا لہو شہر میں ارزاں ہی سہی آسماں پر بھی وہی رنگ نمودار ہے کیوں میں تو مر جانے کو تیار ہوں دشمن کے لیے میرا دشمن بھی مگر مرنے کو ...

    مزید پڑھیے

    دل مضمحل ہے ان کے خیالوں کے باوجود

    دل مضمحل ہے ان کے خیالوں کے باوجود اک سیل تیرگی ہے اجالوں کے باوجود اللہ ری عارفانہ تجاہل کی شوخیاں سمجھے نہ میرا حال مثالوں کے باوجود بدلا نہ چشم شوق کا کوئی بھی زاویہ بگڑے ہوئے زمانے کی چالوں کے باوجود وارفتگئ شوق عجب تازیانہ تھی بڑھنا پڑا ہے پاؤں کو چھالوں کے باوجود ان ...

    مزید پڑھیے

    سوچو تو قیامت ہے چھلاوا ہے بلا ہے

    سوچو تو قیامت ہے چھلاوا ہے بلا ہے دیکھو تو فقط راہ میں نقش کف پا ہے مانا کہ ترے حق سے تجھے کم ہی ملا ہے یہ بھی کبھی سوچا ہے کہ کیا تو نے دیا ہے میں قافلۂ وقت کے ہم راہ چلوں کیا جو شخص ہے پیچھے کی طرف دیکھ رہا ہے اوروں کے تقابل میں سدا پست رہا ہوں یہ بھی مری نا کردہ گناہی کی سزا ...

    مزید پڑھیے

    حق وفاؤں کا جفاؤں سے ادا کرتے ہیں لوگ

    حق وفاؤں کا جفاؤں سے ادا کرتے ہیں لوگ آج کی دنیا کو کیا کہیے کہ کیا کرتے ہیں لوگ آنکھ پر نم ہونٹ لرزاں دل غموں سے پاش پاش اس طرح بھی زندگی کا سامنا کرتے ہیں لوگ اے زمانے کی روش تیری وفا کوشی کی خیر عہد و پیماں توڑ کر وعدہ وفا کرتے ہیں لوگ اے وفور زندگی یہ بھی ترا اعجاز ہے زہر ...

    مزید پڑھیے

    حیراں ہیں سارے آئینے ماضی و حال کے

    حیراں ہیں سارے آئینے ماضی و حال کے جلوے بکھر گئے ہیں یہ کس خوش جمال کے اس بد گماں کی ہوں گی نہ کم بدگمانیاں ہم چاہے رکھ دیں اپنا کلیجہ نکال کے دنیا سے بے نیاز ہوں خود سے بھی بے خبر کیا کیا کرم ہیں مجھ پہ غم لا زوال کے للہ دل کی بات پہ پردہ نہ ڈالیے اسباب کچھ تو ہوں گے ضرور اس ملال ...

    مزید پڑھیے

    ہائے رے عہد گزشتہ کی کرم فرمائیاں

    ہائے رے عہد گزشتہ کی کرم فرمائیاں انجمن در انجمن تنہائیاں تنہائیاں عشق کو حاصل ہیں ان کی بھی کرم فرمائیاں عمر بھر کرتے رہے ہیں جو ستم آرائیاں مل کے دونوں نے مجھے رسوائے دنیا کر دیا کچھ میری نادانیاں تھیں کچھ تری دانائیاں لفظ و معنی میں الجھ کر رہ گئے احباب سب کاش کوئی دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    مٹنے کا جنوں لٹنے کا ارماں نظر آیا

    مٹنے کا جنوں لٹنے کا ارماں نظر آیا آپ آئے تو کچھ جینے کا ساماں نظر آیا سوچا تھا مرے ہاتھ میں دامن ہے تمہارا دیکھا تو خود اپنا ہی گریباں نظر آیا دیکھا جو کبھی غور سے اس جان وفا کو معصوم نگاہوں میں بھی طوفاں نظر آیا اس دور میں جینے کا کیا جب بھی ارادہ اس وقت مجھے مرنا ہی آساں نظر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی محبتوں کا یہ اچھا صلہ ملا

    اپنی محبتوں کا یہ اچھا صلہ ملا جو بھی ملا مجھے وہ مجھی سے خفا ملا تجھ سے بچھڑ کے بھی میں نہ تجھ سے بچھڑ سکا جس راہ پر گیا میں ترا نقش پا ملا اہل کرم کی بھیڑ سے گزری ہے زندگی تجھ سا مگر کوئی نہ کرم آشنا ملا دنیا جفا شعار رہی ہے یہ سچ سہی اے رہ نورد راہ وفا تجھ کو کیا ملا اس کو قیود ...

    مزید پڑھیے

    تری دنیا میں یہ کیا ہو رہا ہے

    تری دنیا میں یہ کیا ہو رہا ہے ہنسی ہونٹوں پہ ہے دل رو رہا ہے ہوا بدکاریوں کی چل رہی ہے ضمیر انسانیت کا سو رہا ہے پڑی ہیں خون کی چھینٹیں سبھی پر جسے دیکھو وہ دامن دھو رہا ہے بشر کا خون ہے پانی سے سستا تماشہ اک مسلسل ہو رہا ہے اسی کے منحرف ہم بھی ہیں قادرؔ جو دعویٰ آج تک ہم کو رہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2