سوچو تو قیامت ہے چھلاوا ہے بلا ہے

سوچو تو قیامت ہے چھلاوا ہے بلا ہے
دیکھو تو فقط راہ میں نقش کف پا ہے


مانا کہ ترے حق سے تجھے کم ہی ملا ہے
یہ بھی کبھی سوچا ہے کہ کیا تو نے دیا ہے


میں قافلۂ وقت کے ہم راہ چلوں کیا
جو شخص ہے پیچھے کی طرف دیکھ رہا ہے


اوروں کے تقابل میں سدا پست رہا ہوں
یہ بھی مری نا کردہ گناہی کی سزا ہے


اب اپنے ہی ماضی پہ یقیں آ نہیں پاتا
لگتا ہے یہ قصہ بھی کبھی میں نے سنا ہے


دنیا کو جو چھوڑا تھا تو کچھ اور تھا عالم
دنیا کو جو چاہا تو عجب حال ہوا ہے


اس دور کو کیا سعیٔ ہدایت کی ضرورت
جس دور کا جو شخص ہے فرزانہ بنا ہے


یہ بھی مری قسمت کہ الجھ بیٹھا میں ان میں
کچھ ایسے عمل جن کی سزا ہے نہ جزا ہے


اس غم کو بھلا کیوں نہ میں سینہ سے لگاؤں
وہ غم جو مرے دوست ترا حسن عطا ہے


ممکن ہو تو مل جاؤ کسی حال میں اک بار
اب وقت کا سورج ہے کہ جو ڈوب رہا ہے


قادرؔ کو شکایت نہیں غیروں کی روش سے
قادرؔ کو تو اپنوں ہی نے مایوس کیا ہے