غم گناہ سے فکر نجات سے الجھے

غم گناہ سے فکر نجات سے الجھے
تمام عمر ہم افسون ذات سے الجھے


توہمات سے اک جنگ تھی جو جاری رہی
سحاب مرگ نہ ابر حیات سے الجھے


نفس نفس پہ نگاہیں تری بدلتی رہیں
قدم قدم پہ نئے حادثات سے الجھے


تجھے جو مان لیا ہم نے بس وہ مان لیا
زباں صفت پہ نہ کھولی نہ ذات سے الجھے


کبھی خرد سے نپٹنا پڑا کبھی دل سے
تغیرات سے الجھے ثبات سے الجھے


بہت ستایا گزشتہ دنوں کی یادوں نے
یہی نہیں کہ نئے واقعات سے الجھے


تضاد لاکھ رہا پھر بھی زندگی کے لیے
غم انا سے غم کائنات سے الجھے


ہم اس زمانے میں کس کو سنائیں کون سنے
دل و نگاہ کی جن واردات سے الجھے


بساط زیست سجائی تری خوشی کے لیے
نہ جیت سے کبھی الجھے نہ مات سے الجھے


ہمیں نے تیری نگاہ غضب کو جھیلا ہے
ہمیں تری نگہ التفات سے الجھے