حیراں ہیں سارے آئینے ماضی و حال کے
حیراں ہیں سارے آئینے ماضی و حال کے
جلوے بکھر گئے ہیں یہ کس خوش جمال کے
اس بد گماں کی ہوں گی نہ کم بدگمانیاں
ہم چاہے رکھ دیں اپنا کلیجہ نکال کے
دنیا سے بے نیاز ہوں خود سے بھی بے خبر
کیا کیا کرم ہیں مجھ پہ غم لا زوال کے
للہ دل کی بات پہ پردہ نہ ڈالیے
اسباب کچھ تو ہوں گے ضرور اس ملال کے
ان کی تلاش میں میں وہاں تک نکل گیا
کٹتے ہیں پر جس اوج پہ وہم و خیال کے