دل مضمحل ہے ان کے خیالوں کے باوجود
دل مضمحل ہے ان کے خیالوں کے باوجود
اک سیل تیرگی ہے اجالوں کے باوجود
اللہ ری عارفانہ تجاہل کی شوخیاں
سمجھے نہ میرا حال مثالوں کے باوجود
بدلا نہ چشم شوق کا کوئی بھی زاویہ
بگڑے ہوئے زمانے کی چالوں کے باوجود
وارفتگئ شوق عجب تازیانہ تھی
بڑھنا پڑا ہے پاؤں کو چھالوں کے باوجود
ان کی وفا پہ آج بھی ایمان ہے مرا
اے وہم تیرے صدہا سوالوں کے باوجود
یہ کون سا مقام ہے اے زعم آگہی
کچھ سوجھتا نہیں ہے اجالوں کے باوجود
کم ہو سکا نہ مرتبۂ بے خودیٔ شوق
عقل و خرد کے صدہا کمالوں کے باوجود
عشق اک خیال خام ہے ان کے خیال میں
قادرؔ کے ایسے چاہنے والوں کے باوجود