اپنی محبتوں کا یہ اچھا صلہ ملا
اپنی محبتوں کا یہ اچھا صلہ ملا
جو بھی ملا مجھے وہ مجھی سے خفا ملا
تجھ سے بچھڑ کے بھی میں نہ تجھ سے بچھڑ سکا
جس راہ پر گیا میں ترا نقش پا ملا
اہل کرم کی بھیڑ سے گزری ہے زندگی
تجھ سا مگر کوئی نہ کرم آشنا ملا
دنیا جفا شعار رہی ہے یہ سچ سہی
اے رہ نورد راہ وفا تجھ کو کیا ملا
اس کو قیود عقل نے دیوانہ کر دیا
باہر ملا مجھے تو وہ اچھا بھلا ملا
خوشیاں ملیں تو آنکھ جھپکنے کی دیر تک
غم جو ملا مجھے وہ بہت دیر پا ملا
اس مختصر حیات میں کس کس کو روئیے
ہر مرحلہ حیات کا صبر آزما ملا
نادیدہ اک کشش ہے نہیں جس کا کوئی نام
دل سے نگاہ تک اک عجب سلسلہ ملا
بے اعتنائیوں سے ملی تاب ضبط غم
تیری نوازشوں سے مجھے حوصلہ ملا
تیرا کرم ہے تیری عنایت ہے اے جنوں
میں جس کو ڈھونڈھتا تھا مجھی میں چھپا ملا
قادرؔ بہت نہال ہے اپنی شکست پر
بازی لگائی دل کی تو اس کا مزہ ملا