Peer Akram

پیر اکرم

  • 1930

پیر اکرم کی غزل

    ذوق پرواز کی اتنی تو پذیرائی کر

    ذوق پرواز کی اتنی تو پذیرائی کر پر شکستہ ہوں جو میں حوصلہ افزائی کر دل خوش فہم کو دے پھر کوئی خوش رنگ فریب پھر کسی رسم سے تجدید شناسائی کر کوئی خورشید بھی منظر کا مقدر کر دے صرف روشن نہ یہ بجھتی ہوئی بینائی کر کون سمجھے گا ترے کرب کا مفہوم یہاں گھر کی دیواروں کو اب محرم تنہائی ...

    مزید پڑھیے

    سینکڑوں سائے مگر اک آشنا چہرہ نہ تھا

    سینکڑوں سائے مگر اک آشنا چہرہ نہ تھا جگمگاتے شہر میں مجھ سا کوئی تنہا نہ تھا جس نے جھانکا رات مجھ کو آئنے کی اوٹ سے جانا پہچانا لگا پہلے کبھی دیکھا نہ تھا مجھ سے پہلے بھی بہت سے اہل دل رسوا ہوئے شہر میں لیکن کبھی اتنا ترا شہرا نہ تھا ہر کلی کی آنکھ میں بھیگے دھندلکے چھا گئے وقت ...

    مزید پڑھیے

    حرف روشن تھے نمایاں درد کی تحریر تھی

    حرف روشن تھے نمایاں درد کی تحریر تھی اس کا چہرہ تھا کہ میرے کرب کی تفسیر تھی کچھ مری آنکھوں میں بھی تھا ڈوبتے رنگوں کا عکس اس گھڑی وہ موہنی صورت بھی کچھ دلگیر تھی ان گنت حصوں میں یوں تقسیم ہو کر رہ گئی زندگی جیسے مرے اجداد کی جاگیر تھی ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی جو بھرے بازار میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    مرے لیے تو یہ سانحہ بھی نیا نہیں تھا

    مرے لیے تو یہ سانحہ بھی نیا نہیں تھا مسافت جاں کا ہم سفر بھی مرا نہیں تھا لبوں پہ پہنچے تو نیم جاں تھے حروف سارے سماعتوں کا کوئی دریچہ کھلا نہیں تھا نہ مل سکی اس کو روشنی کی کوئی بشارت کہ تیرگی کا عذاب اس نے سہا نہیں تھا نگاہ گلشن میں جو کھٹکتا تھا خار بن کے گلے لگا کر اسے جو ...

    مزید پڑھیے

    پتھروں نے یہ تماشا تو کبھی دیکھا نہ تھا

    پتھروں نے یہ تماشا تو کبھی دیکھا نہ تھا اتنی خاموشی سے کوئی آئنہ ٹوٹا نہ تھا درد کے ساگر میں لہریں اس طرح مچلی نہ تھیں غم کی پیشانی پہ کوئی چاند یوں چمکا نہ تھا سونی گلیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھی چاندنی شہر شب کے راستوں پر ایک میں تنہا نہ تھا جس نے روشن کر دئے بجھتی امیدوں کے ...

    مزید پڑھیے

    نکہتوں میں نغمگی ہے رنگ میں جھنکار ہے

    نکہتوں میں نغمگی ہے رنگ میں جھنکار ہے اے مرے احساس تو کتنا بڑا فن کار ہے آپ آ جاتا ہوں میں اپنے مقابل اور پھر سوچتا ہوں سامنے یہ کون سی دیوار ہے سامنے آئے تو سینے سے لگا لوں میں اسے میرے اندر مجھ سے ہی جو برسر پیکار ہے جانے کیسا حادثہ گزرا ہے اس بستی پہ آج سونی سونی ہر گلی سنسان ...

    مزید پڑھیے

    سسک رہی ہے اندھیروں میں شام تنہائی

    سسک رہی ہے اندھیروں میں شام تنہائی کوئی چراغ جلاؤ بنام تنہائی سدا رہے یوں ہی آباد شہر شیشہ گراں کہ میرے نام کیا وقف جام تنہائی روش روش جو ہیں ٹوٹے ہوئے کچھ آئینے قدم قدم ہے نشان خرام تنہائی یہ کس خیال سے روشن ہے روئے شام فراق یہ کیسی لو سے دمکتا ہے بام تنہائی سجائی ہونٹوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    میں اندھیروں کے نگر سے بھی گزر آیا تو کیا

    میں اندھیروں کے نگر سے بھی گزر آیا تو کیا بجھ گئیں آنکھیں مری وہ اب نظر آیا تو کیا کھو گئے دن کے اجالوں میں مرے خوابوں کے چاند عرش سے اب چاند بھی کوئی اتر آیا تو کیا میں تو اک گہرے سمندر میں اتر جانے کو ہوں تو خراج اشک لے کر اب اگر آیا تو کیا گھر سے آنے والے تیروں کا نشانہ بن ...

    مزید پڑھیے

    گلے سے شب کو لگایا سحر کے دھوکے میں

    گلے سے شب کو لگایا سحر کے دھوکے میں ہم آ گئے ہیں خود اپنی نظر کے دھوکے میں ادھر ہے آگ کا دریا ادھر لہو کی ندی کہاں پہنچ گئے ہم راہبر کے دھوکے میں کبھی چلے تھے جہاں سے اسی مقام پہ ہیں تھے دائروں میں رواں ہم سفر کے دھوکے میں فریب حسن نظر ہے کہ سادگی دل کی ہمیشہ سنگ چنے ہیں گہر کے ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں سے مسافر ہوں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں

    صدیوں سے مسافر ہوں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں آج بھی حیرت کے دوراہے پہ کھڑا ہوں بے چہرہ اندھیروں کو منور بھی کیا ہے اور اپنے ہی سائے سے کبھی خود بھی ڈرا ہوں اک عمر جو ظلمات کا زہراب پیا ہے تب جا کے کہیں نور کے سانچے میں ڈھلا ہوں تکمیل ہوئی میری خود اپنی ہی فنا سے پھوٹی جو کرن صبح کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2