گلے سے شب کو لگایا سحر کے دھوکے میں

گلے سے شب کو لگایا سحر کے دھوکے میں
ہم آ گئے ہیں خود اپنی نظر کے دھوکے میں


ادھر ہے آگ کا دریا ادھر لہو کی ندی
کہاں پہنچ گئے ہم راہبر کے دھوکے میں


کبھی چلے تھے جہاں سے اسی مقام پہ ہیں
تھے دائروں میں رواں ہم سفر کے دھوکے میں


فریب حسن نظر ہے کہ سادگی دل کی
ہمیشہ سنگ چنے ہیں گہر کے دھوکے میں


ابھی تو ظلمت شب کا طلسم باقی ہے
ابھی نہ شمع بجھاؤ سحر کے دھوکے میں


فضائیں اجنبی بیگانہ صورتیں اکرمؔ
کہاں یہ آ گئے ہم اپنے گھر کے دھوکے میں