Peer Akram

پیر اکرم

  • 1930

پیر اکرم کی غزل

    شیشے کی دیوار تھی حائل قرب کی ایسی صورت تھی

    شیشے کی دیوار تھی حائل قرب کی ایسی صورت تھی کچھ اپنی بھی مجبوری تھی کچھ اس کی بھی ضرورت تھی ساتھی اور کسی کا میرا ہم ذوق و ہم رنگ سخن اس کی تنہائی کو شاید کچھ میری بھی ضرورت تھی پہلی نظر نے کتنی حیرت سے اس شکل کو دیکھا تھا میری سوچ کی تصویروں سے ملتی جلتی مورت تھی زرد ہوا کا ...

    مزید پڑھیے

    شب کی آنکھوں سے جو گرا ہوگا

    شب کی آنکھوں سے جو گرا ہوگا چاند بن کر چمک رہا ہوگا رت جگے دے کے عمر بھر کے ہمیں وہ حسیں خواب دیکھتا ہوگا شہر شب میں پکار کر دیکھوں کوئی انساں تو جاگتا ہوگا ایک جھنکار سی سنائی دی اک تصور بکھر گیا ہوگا سوچتا ہوں مرے لئے شاید وہ بھی راتوں میں جاگتا ہوگا وہ بھی تنہا اداس لمحوں ...

    مزید پڑھیے

    اک خانۂ ماتم ہی یہ عالم تو نہیں ہے

    اک خانۂ ماتم ہی یہ عالم تو نہیں ہے تقدیر بشر نوحۂ پیہم تو نہیں ہے نغمات مسرت بھی ہیں لمحات طرب بھی یہ شام الم ورثۂ آدم تو نہیں ہے خوشبو کا تبسم بھی ہے رنگوں کی ہنسی بھی گلشن میں فقط گریۂ شبنم تو نہیں ہے کچھ اور بھی جذبے ہیں جو دل دار ہیں دل کے اک غم ہی دل زار کا مرہم تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    رات کے اندھے دریچوں کو منور دیکھتے

    رات کے اندھے دریچوں کو منور دیکھتے ہم کھلی آنکھوں سے جو خوابوں کے منظر دیکھتے بند رکھے خود ہمیں نے جب سبھی دیوار و در کس طرح پھر جھانک کر اس گھر کے اندر دیکھتے کب ہمارے ہاتھ آئیں خواہشوں کی تتلیاں عمر گزری بس یونہی رنگوں کے پیکر دیکھتے موجۂ طوفاں میں اترے اہل دل بے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2