پتھروں نے یہ تماشا تو کبھی دیکھا نہ تھا

پتھروں نے یہ تماشا تو کبھی دیکھا نہ تھا
اتنی خاموشی سے کوئی آئنہ ٹوٹا نہ تھا


درد کے ساگر میں لہریں اس طرح مچلی نہ تھیں
غم کی پیشانی پہ کوئی چاند یوں چمکا نہ تھا


سونی گلیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھی چاندنی
شہر شب کے راستوں پر ایک میں تنہا نہ تھا


جس نے روشن کر دئے بجھتی امیدوں کے چراغ
سانولا سایہ تھا کوئی نور کا شعلہ نہ تھا


منزلوں پر بھی رہیں گے قربتوں کے فاصلے
ہم نے ہنگام سفر اکرمؔ کبھی سوچا نہ تھا