صدیوں سے مسافر ہوں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
صدیوں سے مسافر ہوں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
میں آج بھی حیرت کے دوراہے پہ کھڑا ہوں
بے چہرہ اندھیروں کو منور بھی کیا ہے
اور اپنے ہی سائے سے کبھی خود بھی ڈرا ہوں
اک عمر جو ظلمات کا زہراب پیا ہے
تب جا کے کہیں نور کے سانچے میں ڈھلا ہوں
تکمیل ہوئی میری خود اپنی ہی فنا سے
پھوٹی جو کرن صبح کی پہلی تو بجھا ہوں
لکھ دے میری قسمت میں کسی پیڑ کا سایہ
اک عمر سے تپتے ہوئے صحرا میں کھڑا ہوں