حرف روشن تھے نمایاں درد کی تحریر تھی

حرف روشن تھے نمایاں درد کی تحریر تھی
اس کا چہرہ تھا کہ میرے کرب کی تفسیر تھی


کچھ مری آنکھوں میں بھی تھا ڈوبتے رنگوں کا عکس
اس گھڑی وہ موہنی صورت بھی کچھ دلگیر تھی


ان گنت حصوں میں یوں تقسیم ہو کر رہ گئی
زندگی جیسے مرے اجداد کی جاگیر تھی


ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی جو بھرے بازار میں
وہ مرے افلاس کی منہ بولتی تصویر تھی


دیکھتی تھی آنے والی صبح نو کا راستہ
منتظر زندان شب میں دختر کشمیر تھی


پوجتی تھی ہر نئی صورت کو آوارہ نظر
گرچہ پاؤں میں مقدس عہد کی زنجیر تھی


اک پرندہ پر شکستہ اور سونا راستہ
کس قدر سچی مرے حالات کی تصویر تھی