پیکر یزدانی کی غزل

    صورت کے تو اچھے لوگ

    صورت کے تو اچھے لوگ لیکن دل کے کالے لوگ ان سے اپنا رشتہ کیا وہ ٹھہرے ہیں اونچے لوگ دیکھے ہیں سجدہ کرتے اپنی انا کو ہم نے لوگ آج مسیحا بن بیٹھے گونگے بہرے اندھے لوگ ہر گھر کی مجبوری ہیں کچھ پونے کچھ آدھے لوگ تیری بات کو مانیں گے پیکرؔ دھیرے دھیرے لوگ

    مزید پڑھیے

    جیسا سنا تھا ویسا ہے

    جیسا سنا تھا ویسا ہے وہ مجھ سے بھی اچھا ہے پیار کی باتیں کرتا ہے شاید کوئی پگلا ہے اس کی بات نہ رد ہوگی اس کے پاس تو پیسہ ہے میرے دشمن کا لہجہ آم کے جیسا میٹھا ہے اپنی منزل دور نہیں میل کا پتھر کہتا ہے غیروں جیسی بات نہ کر تو تو میرا اپنا ہے آگ اور پانی کا رشتہ کیا پیکرؔ ہو ...

    مزید پڑھیے

    گزرے ہے دل پہ جو وہ کہیں کیا کسی سے ہم

    گزرے ہے دل پہ جو وہ کہیں کیا کسی سے ہم اپنوں میں ہو کے رہ گئے اک اجنبی سے ہم اس واقعہ کا تجزیہ کرنا محال ہے سہمی ہوئی ہے ہم سے خوشی یا خوشی سے ہم رہنے لگے خفا خفا سورج بھی چاند بھی مانوس کیا ہوئے ہیں کسی روشنی سے ہم دن دن ہے رات رات ہے یہ جاننے کے بعد کیسے نباہ کرتے بھلا تیرگی سے ...

    مزید پڑھیے

    ہنستے ہنستے کہہ دی بات

    ہنستے ہنستے کہہ دی بات تم نے آخر کڑوی بات میرے لئے پتھر کی لکیر کانپ کے منہ سے نکلی بات برسوں بعد بھی لگتا ہے جیسے ہو کل ہی کی بات پل میں لہجہ بدل گیا دیکھی تم نے اس کی بات آنکھوں میں چہرہ ان کا دل میں اک اک ان کی بات پیکرؔ ایسا جھوٹ نہ بول لگنے لگے جو سچی بات

    مزید پڑھیے

    کنکر کہہ نہ پتھر کہہ

    کنکر کہہ نہ پتھر کہہ گوہر ہے تو گوہر کہہ پیچھے غیبت ہوتی ہے جو کہنا ہے منہ پر کہہ پتھر ڈھونے والے کو کائنات کا محور کہہ چیخے قومی یکجہتی حق پر ہو جو حق پر کہہ لہجہ قاتل ٹھہرے گا کڑوی بات کو ہنس کر کہہ مستقبل کی فکر بھی رکھ حال کا حال بھی کھل کر کہہ بھڑک اٹھیں جس سے جذبات ایسی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی پاؤں سفر میں رکھ

    کوئی پاؤں سفر میں رکھ موسم کو بستر میں رکھ گھر کا خرچ نظر میں رکھ کچھ پیسے بھی گھر میں رکھ عزت جان بچائے جو وہ فطرت خنجر میں رکھ اچھا زیور خودداری کم ظرفی مت سر میں رکھ تپ کر کندن بنتا ہے گردش کو ٹھوکر میں رکھ پیکرؔ عیش جو کرنی ہے بزنس دو نمبر میں رکھ

    مزید پڑھیے

    نہیں اپنے تو بیگانے بہت ہیں

    نہیں اپنے تو بیگانے بہت ہیں جہاں میں آئنہ خانے بہت ہیں پریشاں کیوں ہو میرے ہم رکابو مرے غم کو مرے شانے بہت ہیں زمانہ بھر کی حجت کے مقابل فقط تسبیح کے دانے بہت ہیں ابھی سے آپ ہمت ہار بیٹھے ابھی الزام سر آنے بہت ہیں ہمیں رکھا ہے کس درجے میں صاحب سنا ہے آپ کے خانے بہت ہیں کسی کو ...

    مزید پڑھیے