نہیں اپنے تو بیگانے بہت ہیں
نہیں اپنے تو بیگانے بہت ہیں
جہاں میں آئنہ خانے بہت ہیں
پریشاں کیوں ہو میرے ہم رکابو
مرے غم کو مرے شانے بہت ہیں
زمانہ بھر کی حجت کے مقابل
فقط تسبیح کے دانے بہت ہیں
ابھی سے آپ ہمت ہار بیٹھے
ابھی الزام سر آنے بہت ہیں
ہمیں رکھا ہے کس درجے میں صاحب
سنا ہے آپ کے خانے بہت ہیں
کسی کو شام کی ہے فکر لاحق
کسی کو شوق فرمانے بہت ہیں
اسی کا نام پیکرؔ زندگی ہے
مراحل سامنے آنے بہت ہیں