گزرے ہے دل پہ جو وہ کہیں کیا کسی سے ہم

گزرے ہے دل پہ جو وہ کہیں کیا کسی سے ہم
اپنوں میں ہو کے رہ گئے اک اجنبی سے ہم


اس واقعہ کا تجزیہ کرنا محال ہے
سہمی ہوئی ہے ہم سے خوشی یا خوشی سے ہم


رہنے لگے خفا خفا سورج بھی چاند بھی
مانوس کیا ہوئے ہیں کسی روشنی سے ہم


دن دن ہے رات رات ہے یہ جاننے کے بعد
کیسے نباہ کرتے بھلا تیرگی سے ہم


جانا ہے اس مقام پہ رستہ کٹھن سہی
لائیں جو انقلاب کوئی شاعری سے ہم


پیکرؔ ہماری شان کے قطعاً خلاف ہے
آنکھیں چرا چرا کے جئیں زندگی سے ہم