یوں لگ رہا ہے جیسے گماں ٹوٹنے کو ہے

یوں لگ رہا ہے جیسے گماں ٹوٹنے کو ہے
یعنی حقیقتوں کا جہاں ٹوٹنے کو ہے


خواب و خیال و فکر کی رعنائیاں لیے
کاغذ پہ میرا حرف بیاں ٹوٹنے کو ہے


جب اس کے بعد دائمی اک گھر ہے منتظر
کیا غم جو عارضی سا مکاں ٹوٹنے کو ہے


جو فیصلہ ہوا ہے عدالت میں حق طرف
حیران عقل ہے یہ زباں ٹوٹنے کو ہے


پڑھ کر جدید شاعری یہ فائدہ ہوا
اسلوب اپنا اپنا بیاں ٹوٹنے کو ہے


دیکھو کنارے اپنے سنبھالے رہو میاں
جاری جو ہے یہ سیل رواں ٹوٹنے کو ہے


اب کون ہوگا اپنے نشانے کی زد پہ یاں
اب تیر کیا کریں گے کماں ٹوٹنے کو ہے


اب اس کو ایسے چھوڑنا اچھا نہیں میاں
کچھ ہو خیال پیر مغاں ٹوٹنے کو ہے


برداشت کی بھی کوئی تو حد ہوتی ہے عبیدؔ
اب اس سے آگے بند فغاں ٹوٹنے کو ہے