رہ سفر میں رہے اور حیات سے گزرے

رہ سفر میں رہے اور حیات سے گزرے
کہ ایک رنگ میں کتنے جہات سے گزرے


بڑے سکون سے ہم احتیاط سے گزرے
قدم جما کے چلے کائنات سے گزرے


ہے کوئی عزم جواں اور نہ کچھ جنوں خیزی
بے دست و پا ہی رہے ممکنات سے گزرے


یقین دل میں رہا تیری دل ربائی کا
سو جاگ جاگ کے ہم ساری رات سے گزرے


کوئی نتیجہ کہاں بات کا نکل پایا
کہ ایک بات ہی کیا بات بات سے گزرے


تغیرات کی دنیا میں ہم رہے ہر دم
کہ سوتے جاگتے ہم بھی حیات سے گزرے


کبھی نہ خود کو کیا وقف انہماک وجود
عبیدؔ بچ کے رہے حادثات سے گزرے