نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے
نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے وہ حسن اس کا بیاں کیا کرے جو دیکھتا ہو ہر اک ادا کے کئی قد نئے نکلتے ہوئے وہ موج مے کدۂ رنگ ہے بدن اس کا کہ ہیں تلاطم مئے سے سبو اچھلتے ہوئے تو ذرہ ذرہ اس عالم کا ہے زلیخا صفت چلے جو دشت بلا میں کوئی سنبھلتے ...