نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے
نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے
چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے
وہ حسن اس کا بیاں کیا کرے جو دیکھتا ہو
ہر اک ادا کے کئی قد نئے نکلتے ہوئے
وہ موج مے کدۂ رنگ ہے بدن اس کا
کہ ہیں تلاطم مئے سے سبو اچھلتے ہوئے
تو ذرہ ذرہ اس عالم کا ہے زلیخا صفت
چلے جو دشت بلا میں کوئی سنبھلتے ہوئے
یہ روح کھینچتی چلی جا رہی ہے کس کی طرف
یہ پاؤں کیوں نہیں تھکتے ہمارے چلتے ہوئے
اسی کے نام کی خوشبو سے سانس چلتی رہے
اسی کا نام زباں پر ہو دم نکلتے ہوئے
خیال و خواب کے کیا کیا نہ سلسلے نکلے
چراغ جلتے ہوئے آفتاب ڈھلتے ہوئے
اندھیرے ہیں یہاں سورج کے نام پر روشن
اجالوں سے یہاں دیکھے ہیں لوگ جلتے ہوئے
اتار ان میں کوئی اپنی روشنی یا رب
کہ لوگ تھک گئے ظلمت سے اب بہلتے ہوئے
وہ آ رہے ہیں زمانے کہ تم بھی دیکھو گے
خدا کے ہاتھ سے انسان کو بدلتے ہوئے
وہ صبح ہوگی تو فرعون پھر نہ گزریں گے
دلوں کو روندتے انسان کو مسلتے ہوئے