سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا کھلا کہ عشق نہیں ہے کچھ اور اس کے سوا رضائے یار جو ہو اپنا حال کر رکھنا اسی کا کام ہے فرش زمیں بچھا دینا اسی کا کام ستارے اچھال کر رکھنا اسی کا کام ہے اس دکھ بھرے زمانے میں محبتوں سے مجھے مالا مال کر رکھنا بس ...