میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے

میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے
یک دو نفس نمود سہی زندگی تو ہے


جلتی ہے کتنی دیر ہواؤں میں میرے ساتھ
اک شمع پھر مرے لیے روشن ہوئی تو ہے


جس میں بھی ڈھل گئی اسے مہتاب کر گئی
میرے لہو میں ایسی بھی اک روشنی تو ہے


پرچھائیوں میں ڈوبتا دیکھوں بھی مہر‌ عمر
اور پھر بچا نہ پاؤں یہ بے چارگی تو ہے


تو بوئے گل ہے اور پریشاں ہوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتۂ آوارگی تو ہے


اے خواب خواب عمر گریزاں کی ساعتو
تم سن سکو تو بات مری گفتنی تو ہے