Noor Indori

نور اندوری

نور اندوری کی غزل

    کہیں بھی وفا کی نشانی نہیں ہے

    کہیں بھی وفا کی نشانی نہیں ہے یزیدوں کی بستی ہے پانی نہیں ہے جو تجھ سے بچھڑ کر جئے جا رہے ہیں وہ اک قرض ہے زندگانی نہیں ہے مری ہمتوں کو ڈبونا ہے مشکل سمندر میں اب اتنا پانی نہیں ہے ہمیشہ ہمیشہ جواں ہی رہے گا مرا دل ہے تیری جوانی نہیں ہے ذرا غور سے سنئے حالات میرے فسانہ نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جتنے پرندے اڑانوں میں ہیں

    یہ جتنے پرندے اڑانوں میں ہیں مرے تیر کے سب نشانوں میں ہیں چھتیں آسماں چھو رہی ہیں مگر بڑی پٹیاں ان مکانوں میں ہیں ہے بھائی سے بھائی بھی نا آشنا یہ رسمیں بڑے خاندانوں میں ہیں کتابیں جنہیں دے رہیں ہیں صدا وہ بچے ابھی کارخانوں میں ہیں

    مزید پڑھیے

    مسکراتے تھے جو میرا چاک داماں دیکھ کر

    مسکراتے تھے جو میرا چاک داماں دیکھ کر آج شرمندہ ہیں وہ اپنا گریباں دیکھ کر آرزوئے دید دل کی دل میں آخر رہ گئی محو حیرت ہو گیا تصویر جاناں دیکھ کر کس قدر بدلی ہے دنیا نے محبت کی روش پھیر لیتا ہے نظر انساں کو انساں دیکھ کر آئے تھے تسکین دینے وہ دل بیتاب کو خود پریشاں ہو گئے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    جبر اور صبر بار ہوتا ہے

    جبر اور صبر بار ہوتا ہے دل پہ کب اختیار ہوتا ہے وہ زمانے کہ خار تک مہکیں یادگار بہار ہوتا ہے رات اور دن کی کوئی قید نہیں آپ کا انتظار ہوتا ہے بند کرتا ہوں جب بھی میں آنکھیں سامنے روئے یار ہوتا ہے اہل گلشن کو کیا خزاں کو بھی انتظار بہار ہوتا ہے جی رہا ہوں بس اس نظریے پر حاصل ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی بے وفائی سے کسی کو ٹھیس لگتی ہے

    کسی کی بے وفائی سے کسی کو ٹھیس لگتی ہے یقیناً زندگی سے زندگی کو ٹھیس لگتی ہے ہمارا کیا ہے ہم اک جام ہی پر صبر کر لیں گے مگر ساقی تری دریا دلی کو ٹھیس لگتی ہے میں داغ دل سے دنیا کو منور کر تو سکتا ہوں مگر اے چاند تیری چاندنی کو ٹھیس لگتی ہے عجب دستور دنیا ہے کہ جب آنسو بہاتا ...

    مزید پڑھیے

    جو لب پر تری داستاں رکھ رہے ہیں

    جو لب پر تری داستاں رکھ رہے ہیں چراغوں کی لو پر زباں رکھ رہے ہیں ہمیں لوگ کہتے ہیں غدار یارو کہاں کی خبر ہے کہاں رکھ رہے ہیں وہ کیا خاک پہنچیں گے اونچائیوں پر زمینوں پہ جو آسماں رکھ رہے ہیں ہمیں واپسی کا یقیں ہے تبھی تو کنارے پہ ہم کشتیاں رکھ رہے ہیں دیا بن کے جلتا ہوں میں جن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2