جو لب پر تری داستاں رکھ رہے ہیں
جو لب پر تری داستاں رکھ رہے ہیں
چراغوں کی لو پر زباں رکھ رہے ہیں
ہمیں لوگ کہتے ہیں غدار یارو
کہاں کی خبر ہے کہاں رکھ رہے ہیں
وہ کیا خاک پہنچیں گے اونچائیوں پر
زمینوں پہ جو آسماں رکھ رہے ہیں
ہمیں واپسی کا یقیں ہے تبھی تو
کنارے پہ ہم کشتیاں رکھ رہے ہیں
دیا بن کے جلتا ہوں میں جن کی خاطر
وہی راہ میں آندھیاں رکھ رہے ہیں
وہ اے نورؔ تلوار کیسے اٹھائیں
کتابوں میں جو تتلیاں رکھ رہے ہیں