جبر اور صبر بار ہوتا ہے
جبر اور صبر بار ہوتا ہے
دل پہ کب اختیار ہوتا ہے
وہ زمانے کہ خار تک مہکیں
یادگار بہار ہوتا ہے
رات اور دن کی کوئی قید نہیں
آپ کا انتظار ہوتا ہے
بند کرتا ہوں جب بھی میں آنکھیں
سامنے روئے یار ہوتا ہے
اہل گلشن کو کیا خزاں کو بھی
انتظار بہار ہوتا ہے
جی رہا ہوں بس اس نظریے پر
حاصل زیست پیار ہوتا ہے
اپنے اخلاق ہی سے دنیا میں
آدمی با وقار ہوتا ہے
ناخدا کو یہ کیا غرض کوئی
ڈوبتا ہے کہ پار ہوتا ہے
نورؔ وہ گل جو ہو خزاں دیدہ
حاصل صد بہار ہوتا ہے