کسی کی بے وفائی سے کسی کو ٹھیس لگتی ہے

کسی کی بے وفائی سے کسی کو ٹھیس لگتی ہے
یقیناً زندگی سے زندگی کو ٹھیس لگتی ہے


ہمارا کیا ہے ہم اک جام ہی پر صبر کر لیں گے
مگر ساقی تری دریا دلی کو ٹھیس لگتی ہے


میں داغ دل سے دنیا کو منور کر تو سکتا ہوں
مگر اے چاند تیری چاندنی کو ٹھیس لگتی ہے


عجب دستور دنیا ہے کہ جب آنسو بہاتا ہوں
کوئی مسرور ہوتا ہے کسی کو ٹھیس لگتی ہے


جو واقف ہی نہیں ایثار کے پاکیزہ جذبے سے
اسی کی دوستی سے دوستی کو ٹھیس لگتی ہے


اسی باعث میں آنسو پی گیا ہوں بارہا اے دل
مرے رونے سے پھولوں کی ہنسی کو ٹھیس لگتی ہے


بھٹکتا پھر رہا ہو در بدر کیا یہ بھی سوچا ہے
مرا کیا تیری بندہ پروری کو ٹھیس لگتی ہے


بوقت پرسش بیمار غم رونا نہیں اچھا
تمہارے آنسوؤں سے دل دہی کو ٹھیس لگتی ہے


کبھی اے نورؔ جلوے باعث توقیر ہوتے ہیں
کبھی جلوؤں ہی سے جلوہ گری کو ٹھیس لگتی ہے