کہیں بھی وفا کی نشانی نہیں ہے
کہیں بھی وفا کی نشانی نہیں ہے
یزیدوں کی بستی ہے پانی نہیں ہے
جو تجھ سے بچھڑ کر جئے جا رہے ہیں
وہ اک قرض ہے زندگانی نہیں ہے
مری ہمتوں کو ڈبونا ہے مشکل
سمندر میں اب اتنا پانی نہیں ہے
ہمیشہ ہمیشہ جواں ہی رہے گا
مرا دل ہے تیری جوانی نہیں ہے
ذرا غور سے سنئے حالات میرے
فسانہ نہیں ہے کہانی نہیں ہے
عجب ان دنوں حال ہے میرے دل کا
بہاروں کی رت بھی سہانی نہیں ہے
سنبھل کر ذرا نورؔ صاحب سنبھل کر
چمکتے گلاسوں میں پانی نہیں ہے