مجھ کو نہ جانتا مری دانائی جانتا

مجھ کو نہ جانتا مری دانائی جانتا
کوئی تو میری بات کی گہرائی جانتا


خود کو سمیٹ لاتا بڑے احتیاط سے
گر میں مرے خیال کی یکجائی جانتا


اب تک جو میرے ساتھ ہوا سب برا ہوا
ورنہ مجھے یقیں ہے میں اچھائی جانتا


بے صبر ہو کے کوئی کہیں مر گیا تو ٹھیک
ورنہ یہاں پہ کون شکیبائی جانتا


تیرے وصال میں ہوا یہ تجربہ بھی فاش
کیسے وگرنہ میں کبھی تنہائی جانتا


ہر شخص نے ہی کر لیا گویائی پر یقین
کوئی تو میری آنکھ کی سچائی جانتا