میرا اسباب سفر دھوپ ہوا کرتی تھی
میرا اسباب سفر دھوپ ہوا کرتی تھی
میں جدھر جاؤں ادھر دھوپ ہوا کرتی تھی
اس محلے میں بھٹکتا تھا مرے من کا سفیر
جس میں اڑتی سی خبر دھوپ ہوا کرتی تھی
چھاؤں کے بعد کی خواہش بھی ہوا کرتی تھی چھاؤں
دھوپ کے بعد کا ڈر دھوپ ہوا کرتی تھی
کیا ہوئے اب وہ محبت کی شروعات کے روز
جب یہاں آٹھ پہر دھوپ ہوا کرتی تھی
اب ترے روپ کی کرنوں سے ہے روشن یہ حیات
تجھ سے پہلے بھی مگر دھوپ ہوا کرتی تھی
چھاؤں میں آؤں تو سب لوگ چلے آتے تھے
میری تنہائی کا گھر دھوپ ہوا کرتی تھی