اڑنے کی ضد تو چھوڑ ہوا کی ہوس نہیں
اڑنے کی ضد تو چھوڑ ہوا کی ہوس نہیں
ہم دو پرندے عمر سے اہل قفس نہیں
تیرے بدن کے تاب سے ہے درمیاں امس
لیکن تجھے جدا کروں ایسی امس نہیں
ہم لا مکاں ہیں کیا جو ترے در پہ ہیں کھڑے
اور اس قدر عذاب میں بھی ٹس سے مس نہیں
ایسی سیاہ رات کے نیندوں سے خوف ہو
ایسا سفید خواب کے آنکھوں پہ بس نہیں
بانہوں میں دیکھتا ہوں تری میں مرا مقام
لیکن مرا مقام تری دسترس نہیں
اے میری شاعری کے ہنر مجھ کو یوں نہ مار
اے آستیں کے سانپ مجھے اور ڈس نہیں
سو اس حساب سے بھی ہوا سال بھر کا ہجر
کہتا ہے آئے گا وہ مرا اس برس نہیں