یوں ہی تو نہیں ترک کے امکان ہوئے ہیں

یوں ہی تو نہیں ترک کے امکان ہوئے ہیں
کچھ جان کے ہی تجھ سے ہم انجان ہوئے ہیں


ہم تیرے جتانے سے ہیں غمگین وگرنہ
ہم پر تو کئی مرتبہ احسان ہوئے ہیں


آزاد پرندوں کی طرف دیکھ رہا ہوں
اس قید سے کیا کیا نہیں نقصان ہوئے ہیں


ہم تلخ ہوئے خود سے کئی روز بلا وجہ
تب جا کے ہر اک شخص پہ آسان ہوئے ہیں


کب مل کے سنواریں گے کہاں کون سی ساعت
کچھ فیصلے اس ہجر کے دوران ہوئے ہیں