Neelma Naheed Durrani

نیلما ناہید درانی

  • 1955

نیلما ناہید درانی کی غزل

    جس گھڑی ان سے بات ہوتی ہے

    جس گھڑی ان سے بات ہوتی ہے رقص میں کائنات ہوتی ہے ان کے آنے سے دن نکلتا ہے ان کے جانے سے رات ہوتی ہے لفظ یوں پھول بن کے جھڑتے ہیں گویا ہر سو برات ہوتی ہے ان سے ملنے کو معجزہ کہیے حسن کی یہ زکوٰۃ ہوتی ہے روگ ایسا لگا ہے الفت کا اس سے کیسے نجات ہوتی ہے ظالموں سے وہ ڈر نہیں سکتا جس ...

    مزید پڑھیے

    جو دیکھو تو عیاں کچھ بھی نہیں ہے

    جو دیکھو تو عیاں کچھ بھی نہیں ہے جو سوچو تو نہاں کچھ بھی نہیں ہے وہ رہتا ہے کہیں اس سے بھی آگے یہ نیلا آسماں کچھ بھی نہیں ہے فقط دو چار دن کی ہے یہ دنیا ارے چھوڑو یہاں کچھ بھی نہیں ہے کہاں دارا کہاں ہے اب سکندر بچا کس کا نشاں کچھ بھی نہیں ہے نہ طالب ہے نہ ہے مطلوب کوئی زماں اور ...

    مزید پڑھیے

    فریب یار نے چونکا دیا تھا

    فریب یار نے چونکا دیا تھا ہمیں تو پیار نے چونکا دیا تھا ہزاروں سال تھی اس کی ریاضت بس اک انکار نے چونکا دیا تھا فصیلیں بن گئی تھیں چار جانب عجب اسرار نے چونکا دیا تھا محبت کی ہمیں فرصت نہیں تھی جمال یار نے چونکا دیا تھا ہم اپنے آپ میں گم جا رہے تھے کسی گفتار نے چونکا دیا ...

    مزید پڑھیے

    قطرہ قطرہ عشق پیا ہے

    قطرہ قطرہ عشق پیا ہے قطرہ قطرہ درد سہا ہے قطرہ قطرہ لمس کا جادو آنکھ نے گویا شہد چکھا ہے یاد کا موسم دھیرے دھیرے تن من میں رس گھول گیا ہے کیسی رم جھم میں بھیگی ہوں میں نے اس کو جب سوچا ہے

    مزید پڑھیے

    شہر میں بستے حیوانوں سے ڈر لگتا ہے

    شہر میں بستے حیوانوں سے ڈر لگتا ہے مجھ کو ایسے انسانوں سے ڈر لگتا ہے اونچی ذات کا ڈھونگ رچا کر ڈستے ہیں اونچی ذات کے شیطانوں سے ڈر لگتا ہے مسجد کے حجرے میں بچے مر جاتے ہیں تیرے گھر کے دربانوں سے ڈر لگتا ہے عورت گھر کے چولھے سے جل جاتی ہے مجھ کو ایسے زندانوں سے ڈر لگتا ہے

    مزید پڑھیے

    تیرے جیسا چہرہ دیکھا بہت دنوں کے بعد

    تیرے جیسا چہرہ دیکھا بہت دنوں کے بعد آنکھوں میں کاجل بھی پھیلا بہت دنوں کے بعد خنکی کی اک لہر سی پھیلی میرے ذہن کے اندر دل نے مجھ کو بہت ستایا بہت دنوں کے بعد خشک ہواؤں نے بھی کتنے سوکھے پھول گرائے دھرتی نے جب روپ سجایا بہت دنوں کے بعد چاروں جانب روشنی پھیلی سورج جب بھی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی رات تھی گزر ہی گئی

    زندگی رات تھی گزر ہی گئی اک عجب بات تھی گزر ہی گئی جو مسافت تھی سب تمام ہوئی کیسی برسات تھی گزر ہی گئی لوگ جتنے ملے بچھڑ ہی گئے کیا ملاقات تھی گزر ہی گئی سانپ ہی سانپ تھے کہانی میں اک خرافات تھی گزر ہی گئی دن تھے آسیب رات ڈائن تھی کیسی آفات تھی گزر ہی گئی جان نعمت تھی یا عقوبت ...

    مزید پڑھیے

    جمال یار کو دیکھوں کمال یار سے پہلے

    جمال یار کو دیکھوں کمال یار سے پہلے میں خوشبو کی طرح مہکوں خیال یار سے پہلے کرشمے حسن کے سورج ستارے پھول ظاہر ہیں مگر میں کس طرف دیکھوں مثال یار سے پہلے دعاؤں میں مری یوں تو بہت تاثیر ہے لیکن میں اس سے اور کیا مانگوں سوال یار سے پہلے ہے عادت دور رہنے کی اگر وہ سامنے آئے میں شام ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے پیار میں ہر دم گل و گلزار سا رہنا

    کسی کے پیار میں ہر دم گل و گلزار سا رہنا بنا چکھے کسی مے کو یوں ہی سرشار سا رہنا یقیں کرنا کسی کی ذات پر اور پھر بدل جانا کبھی لیلیٰ کبھی مجنوں کبھی ہشیار سا رہنا کبھی سنگ ملامت سہہ کے اس دنیا کو تج دینا کبھی اپنے ہی رستے میں کسی دیوار سا رہنا تمہیں کیا ہو گیا ہے نیلماؔ اس دشت ...

    مزید پڑھیے

    اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے

    اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے خزاں میں پتے اگانے والا گلوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے کوئی دکھائے محبتوں کے سراب مجھ کو مری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیام لے کر اندھیری راتوں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2