Neelma Naheed Durrani

نیلما ناہید درانی

  • 1955

نیلما ناہید درانی کی نظم

    چور

    میرے تن پر بھوک اگی تھی میری آنکھیں ننگی تھی اور میرے آنگن میں ہرجا غربت بھوک اور محرومی کے پھول اگے تھے میرے کانٹے ہاتھوں نے ان پھولوں کو توڑنا چاہا اور ہم سایے کے گھر سے جس کے گھر میں سونے چاندی اور پیسوں کی دیواریں تھیں اپنے نے کچھ خوشیاں چن لیں چور چور چور چور کچھ آوازیں پھر ...

    مزید پڑھیے

    وادیٔ کیلاش

    میں کافر ہوں مجھے خوشبو بھری وادی بلاتی ہے جہاں کرنیں اترتی ہیں تو دھرتی رقص کرتی ہے جہاں جھرنے مچلتے ہیں فضائیں گنگناتی ہیں جہاں نفرت نہیں ہوتی جہاں قاتل نہیں ہوتے جہاں غربت تو ہوتی ہے مگر مجرم نہیں ہوتے وہ وادی ہی تو جنت ہے محبت ہی عبادت ہے جہاں سب لوگ رقصاں ہیں خوشی کے رنگ ...

    مزید پڑھیے

    حوالات

    پھولوں والے باغ میں بیٹھ کر ایک بڑا سا پنجرہ دیکھا جس میں کچھ انسان بھرے تھے پیلی رنگت وحشی آنکھیں بکھرے بالوں والے انساں چھوٹے سے اس تنگ پنجرے میں کچھ بیٹھے تھے کچھ لیٹے تھے لیکن سب کچھ سوچ رہے تھے شاید اپنی اپنی سزائیں یا پھر اپنے اپنے جرائم یا ان لوگوں کے بارے میں جو پنجرے سے ...

    مزید پڑھیے

    کاش وہ روز حشر بھی آئے

    تو میرے ہم راہ کھڑا ہو ساری دنیا پتھر لے کر جب مجھ کو سنگسار کرے تو اپنی بانہوں میں چھپا کر پھر بھی مجھ سے پیار کرے

    مزید پڑھیے

    تمہیں ملنے میں آؤں گا

    تری پیاسی نگاہیں چوم کر دل سے لگاؤں گا ترے آنچل کے سارے خواب پلکوں پر سجاؤں گا دسمبر کی وہ دھندلائی صبح تیرے لیے ہوگی تری خاطر میں آؤں گا سبھی دھندلائی صبحوں نے سبھی مرجھائی شاموں نے مری آنکھوں میں جلتے آس کے شعلے بجھائے ہیں لہو رنگ آنسوؤں کے دیپ پلکوں پر سجائے ہیں

    مزید پڑھیے

    کوڑوں کی سزا پانے والے پہلے شخص کے نام

    تو میرے دور کا عیسیٰ ہے جس نے قوم کے سارے گناہوں ساری برائیوں ساری سزاؤں کو اپنے کندھے پہ اٹھا کر کوڑے کھائے ہم سب چور ہیں ہم سب زانی ہم سب رشوت خور لٹیرے پھر سب کے حصے کی سزا تم نے کیوں پائی اور ہم چاروں اور کھڑے تیرا تماشا دیکھ رہے تھے جیسے تم نے جرم کیا تھا اور ہم سارے پارسا ...

    مزید پڑھیے