فریب یار نے چونکا دیا تھا
فریب یار نے چونکا دیا تھا
ہمیں تو پیار نے چونکا دیا تھا
ہزاروں سال تھی اس کی ریاضت
بس اک انکار نے چونکا دیا تھا
فصیلیں بن گئی تھیں چار جانب
عجب اسرار نے چونکا دیا تھا
محبت کی ہمیں فرصت نہیں تھی
جمال یار نے چونکا دیا تھا
ہم اپنے آپ میں گم جا رہے تھے
کسی گفتار نے چونکا دیا تھا
جو اک آنسو بہا تھا وقت رخصت
اسی اظہار نے چونکا دیا تھا
بچھڑتے وقت اس نے جو کہا تھا
اسی اقرار نے چونکا دیا تھا
وہ دست غیب بن کر آ گئے تھے
ہمیں اغیار نے چونکا دیا تھا