Neel Ahmed

نیل احمد

نیل احمد کی نظم

    بیداری

    نیند کمرے میں ٹہل رہی ہے رات کی بے شمار آنکھیں مجھ پر گڑیں ہیں میں بے سدھ ایک کونے میں پڑی ہوں رات کی گہری سیاہی مجھ پر مسلط ہونے لگی ہے میری ادھ کھلی کھڑکی سے آنے والی نیلی چاندنی دل سے دیوانوں کی طرح لپٹ رہی ہے ایسے میں ایک غیر مبہم وحشت مجھ پر طاری ہوتی ہے تنہائی چیخ چیخ ...

    مزید پڑھیے

    سپیرن

    میں کہ تجھ سے بڑی سپیرن ہوں سانپ پالے آستینوں میں آستینوں میں

    مزید پڑھیے

    گناہ

    محبت برملا اظہار ہے سچے تعلق کا اگر کوئی کہے چھپ کر مجھے تم سے محبت ہے بھروسہ تم نہیں کرنا گناہ کے واسطے خلوت ہی تو درکار ہوتی ہے

    مزید پڑھیے

    بے یقینی کے پھول

    خاموشی کے جوہڑ میں کھلنے والے پھول سنسان جنگلوں کی دہشت اور ہلاکت خیز آندھیوں کے خوف کے سبب جلال و جمال سے خالی رہ جاتے ہیں موسموں کے گرم اور تلخ لمس انہیں شفاف اور شیریں نہیں رہنے دیتے شوق اور آرزو کی آگ بے چین رکھتی ہے انہیں وہ نہیں جانتے کہ شکستہ اور پگھلے ہوئے جذبات کے سمندر ...

    مزید پڑھیے

    گیلی ہجر کی قبریں

    کفن اس کی رداؤں کا تعفن ہے صداؤں کا کہ ہنگامہ سا برپا ہے خموشی کی اداؤں کا سلگتی ہے سسکتی ہے قیامت سی گزرتی ہے جو لمحات جدائی کو کسی اجلی سی چادر میں اٹھاتے ہیں زمیں میں جیسے مردے کو دبا کر لوٹ آتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں یہ قبریں ہجر کی نیلی ہمیشہ گیلی رہتی ہیں

    مزید پڑھیے

    چودہ منٹ

    تتلی کے پروں سے رنگ چرانے بہتے پانی پر تصویریں بنانے پتھر کی کوکھ سے مجسمے تراشنے گمان سے اونچی دیواریں اٹھانے اور شاعری میں غرق ہو جانے سے تم عظیم تخلیق کار کہلاتے ہو ذرا دیکھو عظیم مصور پکاسو تصویروں میں رنگ ایسے بھرتا جیسے روح پھونک رہا ہو بچارہ نا آسودگی کا مارا تصویریں ...

    مزید پڑھیے

    آگہی

    مری پرواز اونچی ہے پہاڑوں پر چٹانوں پر کہیں تو آسمانوں پر فضائے بیکراں کی وسعتوں میں ہے مری منزل بہت ہی ماورا ہیں اس جہاں سے ذہن کے ہالے زمانوں پر لگا رکھے ہیں میں نے سوچ کے تالے حدود لا مکاں بھی گونجتی ہے میرے نالوں سے کہ میں نے پا لیا ادراک کو سارے حوالوں سے

    مزید پڑھیے

    آدھی محبت

    مرد ہر اس عورت سے آدھی محبت کرنے لگتا ہے جو اس کی پوری بات سنتی ہے

    مزید پڑھیے

    ہلچل

    مجھے اچھا نہیں لگتا کھڑا خاموش سا دریا کوئی ہلچل ہو طوفاں ہو کوئی تو بادباں ٹوٹے کوئی تو ناخدا ایسا ہو جو باد مخالف کو پلٹ دے زور بازو سے نا کشتی ڈگمگائے اس کی لہروں کے تلاطم پر نا کشتی ڈولتی جائے ہوا کے رخ پہ ساحل پر بہت گرداب بھی ہوں گے بہت بھونچال آئیں گے ہو ایسا نا خدا کہ جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3